ویڈیوز بازار یا مقتلِ اخلاقیات؟

قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلامیان برصغیر کو خیبر سے راس کماری تک پاکستان کے نام سے ایک ملک بنا کر دیا تھا ۔ملک کیا تھا دنیا کا ایک شاہکار تھا جس کے دوپر تھے اور دو پروں اور دوحصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا اور فاصلہ بھی ایسا کہ جس کا ایک ایک انچ دشمنی سے بھرا تھا ۔ایک ہزار میل کی مسافت کے باوجود دونوں کا نام ایک ہی تھا اور دلوں کی تھوڑی سی کشادگی سے اور ظرف کی وسعت سے یہ تجربہ کامیاب ہو سکتاتھا مگر یہ رویے بھلا بازار سے کہیں ملتے ہیں ۔پچہتر برس میں اس ملک کا حلیہ بگاڑ دیا گیا اور آج بچے کھچے ملک کو جس کا ایک پر کٹے ہوئے مدتیں گزر گئیں ”ویڈیوستان ” بنا دیا گیا ہے ۔جہاں ہر بااثر آدمی کی ایک ویڈیو برآمد ہوتی ہے اور پھر سیاست کے تالاب میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے ۔ایک طبقہ ویڈیو پر روتا اوردوسرا ان آنسوئوں سے لطف لیتا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ پوری سیاست ہی آڈیوز اور ویڈیوز کے گرد گھوم رہی ہے ۔ماضی میں یہ کام بدعنوانی کی فائلوں سے لیا جاتا تھا اب لگتا ہے کہ وہی کام جدت اختیار کر گیا ہے اور اب ہر شخص کی ایک ویڈیو یا آڈیوبن جاتی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ۔یہ ایسا توتا ہوتا ہے کہ جس میں پھر اس شخص کی جان ہوتی ہے ۔کچھ عرصہ پہلے کیپٹن صفدر نے کہا تھا کہ ویڈیوز کبھی دفن نہیں ہوتیں ۔اگر ویڈیو ز کے برآمد ہونے کی یہی رفتار رہی تو بہت جلد تمام با اثر طبقات ویڈیوز کے دفن ہوجانے کی اجتماعی دعائیں مانگتے نظر آئیں گے ۔کیا ہی اچھا ہو کہ ان ویڈیوز کا ایک قبرستان بن جائے ۔اس سے پہلے تمام بااثر طبقات اپنی اپنی ویڈیوز کا اعتراف کرکے اس کھیل کو ختم کر دیں اور قوم کواس نفسیاتی عارضے اور تماشے سے نجات دلائیں ۔سیاست میں ویڈیوز اور آڈیوز کا لیک ہونا عام سی بات ہے مگر اس کام کو اجتماعی کاروبار بنانا اور لوگوں کی پرائیویٹ اور خاندانی زندگی میں تانک جھانک کرنا قطعی ناقابل قبول رویہ ہے اور یہ رویہ پاکستان میں عام چلن بنتا جا رہا ہے۔یہ اخلاقی پستی کی انتہا ہے ۔دنیا میں آڈیو ویڈیو لیکس کی زد پورے معاشرے اور ملک پر نہیں پڑتی جس بااثر حکومتی شخصیت کی ایسی ویڈیو آتی ہے یا تو عوام خود اگلے الیکشن میں اس کا محاسبہ کرتے ہیں یا وہ خود ذمہ داری قبول کرکے خود کو پبلک لائف سے الگ کر دیتا ہے ۔امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں مونیکا لیونسکی سیکنڈل نے مغرب کو ہلا رکھ دیا تھا ۔امریکہ جیسی بڑی طاقت کے سربراہ اخلاقی لحاظ سے دفاعی پوزیشن میں چلے گئے تھے ۔عمومی طور پر سمجھا یہی جا رہا تھا کہ کلنٹن مغرب کی موجودہ روایات کے تحت ان الزامات پر ازخود مستعفی ہوں گے ۔کلنٹن نے ایسا نہ کیا مگر امریکی نظام نے انہیں ایک مجرم کی طرح کٹہرے میں کھڑا کیا اور دنیا کو ایک تماشا دکھا دیا ۔اس سے اچھا تھا کہ کلنٹن از خود استعفیٰ دے کر چلے جاتے ۔کلنٹن کی یہ درگت بتارہی تھی کہ مغرب نے اپنی قیادت کے لئے کچھ اخلاقی میعار قائم کر رکھے ہیں ۔عام آدمی جس قدر آزاد ہے پبلک آفس ہولڈر اتنا ہی پابندیوں کا شکار ہے ۔ہمارے ہاں معاملہ اس کے قطعی اُلٹ ہے اول کسی بھی سطح کی قیادت کے لئے کوئی معیار ہی نہیں دوزسرا یہ کہ حد عبور کرنے والے کو سز ادینے کی بجائے آڈیوز اور ویڈیوز کو سیاسی انجینئر نگ کے لئے استعمال عام ہو گیا ہے ۔ایک فریق دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے ۔ٹیکنالوجی کی جدت نے اس عمل میں نقلی اور جعلی ویڈیوز کے اضافے کے بعد معاملے کو مزید سنگین اور پیچیدہ بنا دیا ہے ۔کسی کے دھڑ پر کسی دوسرے کا سر سجانا اب آسان ہو کر رہ گیا ہے۔یہ کام جب سیاسی دنیا میں مروج ہوجائے تو اس سے ملک کے نظام کی چولیں ہل کر رہ جاتی ہیں ۔اس سرقہ بازی سے فیملی لائف بھی محفوظ نہ رہے تو اخلاقی بحران کی سنگینی بڑھ جاتی ہے ۔پاکستان کی سیاست ایک ویڈیو بازار کا منظر پیش کر رہی ہے اوردنیا پاکستان کے ویڈیوستان بننے کا نظارہ کر رہی ہے اور ایک تماشا لگا ہوا ہے ۔سیاست دانوں اور حکمرانوں کو اب سنبھلنا ہوگااور ملک کو اس اخلاقی انارکی سے بچانا ہوگا ۔ورنہ کوئی بھی شخص اس رواج سے بچنے نہیں پائے گا ۔ویڈیوز آڈیوز کے اس کھیل کا المناک پہلو یہ ہے کہ مشرقی سیاست دانوں نے تسلیم کیا کہ ان کے پاس لوگوں کی ویڈیوز ہیں اور وہ ”مناسب ” وقت پر ریلیز کریں گے ۔ویڈیوز کا یہ کھیل دودھاری تلوار ہے سب نے اس عمل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے توبہ نہ کی تو اس دوھاری تلوار سے کوئی بھی بچ نہیں پائے گا ۔اب یہ دودھاری تلوارپوری طرح چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام