تجربہ کرکے دیکھیں تو!

ملک کے معاشی حالات کا معاشرے کے ہر طبقے پر اثر پڑا ہے یہاں تک کہ بڑے بڑے کاروبار بھی مندے کی طرف چل پڑنے کے باعث مالکان متفکر ہیں ایسے میں چھوٹے کاروبار اور بے روزگاری میں اضافہ مشکل معاشی حالات جیسے مسائل میں اضافہ فطری امر ہے میرا آج کا موضوع مہنگائی نہیں اور نہ ہی ملک کے معاشی حالات ہیں البتہ ان کے معاشرے کے طبقات خاص طور پر متوسط اور کم آمدنی والے افرادپر پڑنے والے اثرات ضرور ہیں کہ اس کے ان پرکیا اثرات پڑتے ہیں مجموعی صورتحال کاتو اکثر تذکرہ چلتا ہی رہتا ہے آج عید کی مناسب سے بات کرنے کی کوشش کرتی ہوں کہ معاشی حالات اور اخراجات کے اثرات و مسائل کیا پیش آتے ہیں آج کے کالم میں عید کے اضافی اخراجات کے بعد باقی نصف ماہ کے دنوں کے مسائل کا تذکرہ ہے قبل اس کے کہ اس صورتحال کا ایک اجمالی جائزہ لیں کہ عید پر عام آدمی کے احساسات کیا رہے ہوں گے اس امر کا اعادہ کرلیں کہ عید الفطر خوشیوں اور مسرتوں کا تہوار ہوتی ہے جس میں اہل خاندان اور دوست اکٹھے ہوتے ہیں مسرتوں اور تحائف کاتبادلہ کیا جاتا ہے ہر گھر میں کچھ اضافی پکوان بھی پکائے جاتے ہیں بچوں کو عیدی بھی دینا پڑتی ہے اور لباس و پوشاک کے اخراجات بھی کافی ہو چکے ہوتے ہیں ایسے میں ایک ایسے ملک میں جہاں عوام کی اکثریت کم اور قلیل آمدن کے باعث مالیاتی دبائو کا شکار ہوئی ہوتی ہے قرض لے کر مہینے کے بجٹ کا توازن بگڑنے اور کچھ صحت کے مسائل کا بھی اکثر سامنا رہتا ہے ایسے میں مجھے فکر ان لوگوں کی ہو رہی ہے جو ان مسائل کے باعث نہ صرف عید اچھے طریقے سے منا نہیں سکے ہوں گے بلکہ عید کے بعد کے دنوں میں بھی مسائل سے دو چار ہوئے ہیں عید کے چوتھے دن اتوار کو اچھے خاصے ملازمت پیشہ افراد اس پر بات کررہے تھے کہ باقی مہینہ کیسے گزرے گا ان کا کہنا تھا کہ وہ جیسے تیسے گزارا کر لیں گے ان کے ماتحتوں اور کم تنخواہ والے ملازمین کوکیا کیا مشکلات پیش آئیں گی ان کو توجہ نجی اداروں کے ان ملازمین کی طرف گئی ہی نہیں جن کے مالکان گنے کی طرح اپنے کارکنوں کو نچوڑتے توہیں لیکن ان کی تنخواہیں اور مراعات میں اضافہ پر تیار ہی نہیں کم ہی انصاف پسند مالکان ہوتے ہیں جو اپنے ملازمین کے مسائل سمجھنے کی کوشش کرکے اپنے منافع پر نظر رکھنے کی بجائے اس میں اپنے ان ملازمین کو بھی حصہ دار بناتے ہیں جن کے خون پسینے کی کمائی مالکان کی نفع دے رہی ہوتی ہے پھر بھی تنخواہ دار تو تنخواہ دار ٹھہرے سرکاری اور نجی ملازمین کی تنخواہیں عید کے ایام کے بغیر بھی پورے مہینے کے لئے کافی ویسے بھی نہیں ہوا کرتیں یہ بے چارے محلے کے کریانہ فروشوں دودھ والوں اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کرنے والے افراد کی مہربانی اور تعاون سے ادھار پر ضروریات پوری کرکے تنخواہ آنے پر ادھار شکریہ کے ساتھ ادا کرکے آگے کا سفر شروع کرنے کے عادی ہیں یہ گھن چکر زندگی بھر چلتا ہے ایک وقت تھا کہ عیدیں سادگی سے گزاری جاتی تھیں اتنے لوازمات اور نمود و نمائش نہیں ہوا کرتی تھی اب تو عید آتی ہے تو سارا کس بل نکال دیتی ہے کچھ لوگوں کی زندگی خوشیوں اور اطمینان سے عبارت ہوتی ہے اور کچھ سب کچھ پاس ہو کر بھی اطمینان کو ترستے ہیں یہ قدرت کی بغرض امتحان وہ حکیمانہ تقسیم ہے جسے انسان چیلنج نہیں کر سکتا رمضان المبارک میں زکواة و صدقات کی ادائیگی سے خاصے افراد کی دستگیری ہوتی ہے مگر انفاق کے باوجود بھی معاشرے میں شدید تنگدستی کے باعث عید کی خوشیوں سے محروم رہ جانے والوں کی کمی نہیں ایک اندازے کے مطابق اگر ہمارے ملک میں امراء کی بڑی تعداد مکمل ذمہ داری اور درست حساب کتاب کرتے ہوئے زکواة کی ادائیگی کریں تو معاشرے کے لاچار افراد کی بڑی مدد ہوسکتی ہے جو زکواة نکالتے ہیں وہ اس کی ادائیگی میں احتیاط نہیں کرتے جس کی وجہ سے حقیقی مستحقین کی بجائے زکواة پیشہ ور بھکاریوں کی جیب میں چلی جاتی ہے اور سفید پوش طبقہ محروم رہ جاتا ہے ہم جو متوسط طبقے کے لوگ ہیں ہم میں بھی ایثار کی کمی ہے اگر ہم عید کے موقع پراپنے بچوں کو اس بات کی ترغیب دیں کہ جو عیدی ان کے پاس اکٹھی ہوتی ہے وہ اس سے پٹاخے اور کھلونا پستول و بندوقیں خریدنے کی بجائے کم آمدنی والے والدین کے بچوں میں بانٹیں ہم اگر ابھی سے اپنے بچوں کو یہ عادت ڈالیں کہ وہ ابھی سے فلاحی مقاصد کی اہمیت سے آگاہ ہوں اور عملی طور پر فلاحی کاموں میں حصہ ڈالنے لگیں تو یہ بڑا کام ہو گا ۔جن لوگوں کو رب کریم نے غریب پیدا کیا ہے او رجن کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں ان کے مسائل کا حل ہمارے پاس نہیںاور نہ ہی ہمیں قدرت کی مشیت کا علم ہے لیکن کم از کم ہم ان کی تھوڑی بہت دستگیری تو کر سکتے ہیں اگر ہم میں سے ہر ایک زکواة کی ادائیگی مکمل اور پوری طرح کرنے کے ساتھ اس کو مستحقین اور سفید پوش افراد تک پہنچانے کی ذمہ داری نبھائیں فطرانہ کی رقم بھی احتیاط سے دیں مستحقین کی تلاش میں تساہل کا مظاہرہ نہ کیا جائے اور ان تک پہنچیں اور ان کو ان کا حق اور حصہ پہنچائیں تو یہ کارآمد ہوگا صدقات اور خیرات اور انفاق میں حتی المقدور ا ضافہ کریں اور اپنی آمدنی کا ایک حصہ معین کرکے خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ بساط بھر استطاعت کے مطابق دوسروں کی مدد اور فلاح کے لئے بروئے کار لائیں تو کم آمدنی والے محروم افرادکی کافی مدد ہو سکتی ہے تھوڑی سی توجہ اپنے آس پاس کے لوگوں پر دی جائے تو عیدیں اور خوشی کے مواقع پر ان کے مایوس چہروں پر رونق دکھائی دے گی یاد رکھنا چاہئے کہ دوسروں کو خوشیاں دینے والے اور خوشیوں کا سب بننے والے کبھی ناخوش نہیں ہوا کرتے بلکہ قدرت بدلے میں ان کو اطمینان قلب خواہ مخواہ عطا فرماتے ہیں تجربہ کرکے دیکھیں تو۔

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال