3 443

حج کے مبارک ایام اور یادِ ماضی

عمر عزیز کے ساٹھ برس گزارنے کے بعد حساس طبیعت لوگ ناسٹیلجیا (Nastalgia) کے شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ اگرچہ بیماری کی ایک ہلکی پھلکی قسم ہے لیکن بعض اوقات شدت بھی اختیار کر جاتی ہے۔ آج کل میں حج کے حوالے سے اس بیماری کا شکار ہو رہا ہوں۔ اسی تناظر میں ایک یادِ ماضی وہ ہے جودادا جان سے اور اُن کے ہم عمروں سے حکایتیں اور روایتیںسنتی تھیں اور دوسرا حصہ آپ بیتی پر مشتمل ہے۔
دادا جان کے زمانے میں جب برصغیر پاک و ہند ہر انگریز بہادر کی حکومت تھی’ دیندار بزرگ اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے ایک ہی آرزو اورخواہش دل میں لیے ہوئے جیتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح زیارت ِ حرمین الشرفین سے آنکھیں ٹھنڈی کر لیں۔
اُس زمانے میں غربت عام تھی اور ذرائع حمل و نقل محدود اور سست رفتار تھے۔ لہٰذا ہمارے بزرگ اپنی کھیتی باڑی’ مال مویشی اور محنت مزدوری کی کمائی میں سے کچھ رقم پس انداز کرنا شروع کرتے تھے اور پھر پانچ دس سال کی جمع پونجی لے کر عموماً سمندری جہازوں اور عض ایران ‘ عراق سے ہوتے ہوئے زمینی سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے سرزمین حجاز پر عقیدتوں بھرے دلوںکے ساتھ اُترتے تھے۔
آج کی طرح حج پر جانا نہ کوئی آسان کام تھا اور نہ ہی نام کے ساتھ حاجی یا الحاج کا لقب لگانے کی روایت تھی’ بلکہ دل وجان کے ساتھ مہینوںقبل اس مبارک سفر کے لیے تیاری شروع کر لیتے تھے۔ اس سلسلے کا سب سے اہم کام اور عمل یہ ہوتاتھا۔ قاصد حج اپنے اعمال میں واقعی وہ تبدیلی لانے کی کوشش میںہوتا جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ کی تعلیمات کے مطابق مطلوب ہوتا۔ گائوںعلاقے کے لوگ حج پر جانے والے بزرگوں سے ملاقات کو سعادت اور عبادت کا حصہ سمجھتے تھے۔ اور اُن سے دعائوں کی درخواست کے ساتھ یہ آرزو بھی پیش کرتے کہ مدینہ طیبہ میںزیارت اقدس کا شرف حاصل کرتے وقت آقائے نامدارۖ کی خدمتِ اقدس و عالیہ میں ہمارا دست بستہ سلام بھی پیش کیجئے۔
حج کی نیت رکھنے والے بزرگ اپنے یار احباب’ رشتہ داروں اور گائوںکے لوگوں کے پاس خود بھی حاضری دیتے اور اُن سے ”اخنہ نجنا” یعنی لینا دینا اور کہا سنا معاف کرنے کروانے کو ضروری گردانتے تھے۔
اور پھر ایک دن پورے گائوںکے بزرگوں’ نوجوانوں اور ائوں بہنوں کی دعائوں اور رشک کے آنسوئوں کے ساتھ رخصت ہو جاتے تھے۔ اُس زمانے میں پٹرو ڈالر کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔ لہٰذا سعودی لوگ برصغیر کے حجاج کی راہیںتکتے تھے تاکہ اُن پر کچھ مقامی اشیاء بیچ کر دو پیسے کما
سکیں۔ اُس زمانے کے حج کی بعض پرانے ویڈیوز اور فلمیں دیکھ اب بھی دل میں یہ خواہش انگڑائی لیے بغیر نہیں رہتی کہ کاش ہمیں بھی اُس زمانے میں یہ سعادت حاصل ہوتی ۔ آج بھی جب حرم شریف اور مدینہ طیبہ کی وہ فطرت کے قریب تصاویر اور فلمیں نظر سے گزرتی ہیں تو دل پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ اسی زمانے میں پھر جب حجاج اپنے اپنے گھروں کو واپس ہوتے تھے’ تو مہینوں تک دور پار اور نزدیک سے لوگ تبرک حاصل کرنے کے لیے آتے تھے۔ حجاج کرام سے حجاز و مدینہ طیبہ کے کھجور اور خانہ کعبہ کے پردے (غلاف) کے تار وغیرہ حاصل کرنے کو بہت بڑا تحفہ سمجھتے تھے۔
اور پھر وقت نے کروٹ بدلی ۔ انگریز سے برصغیر خالی ہو گیا ‘ قیام پاکستان کا عظیم اور بابرکت واقعہ رونما ہوا ‘ اُدھر سعودی عرب پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی دعا اور جناب خاتم النبین ۖ کی برکات کے طفیل پٹرول کی صورت میں نعمتوں کی ایسی بارش کر دی کہ دنیاجہاں کی ساری نعمتیں مشرق وسطیٰ میں اُمڈ کر آ گئیں۔
اُدھر سائنسی ایجادات و انکشافات نے ایسے محیر العقول کارنامے سرانجام دیے کہ برسوں کا سفر مہینوں’ مہینوں کا دنوں اور دنوں کا گھنٹوں میں طے ہونے لگا… ہوائی جہاز اور وہ بھی آج کے جہازوں نے دنیا کو واقعی ایک عالمی گائوں میںتبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ جس کے طفیل مشرق وسطیٰ میںلاکھوں پاکستانی محنت کشوں نے خود الحاج بن کر اپنے والدین اور بزرگوںکوبھی الحاج بنوا دیا۔ اب گویاحج اتنا آسان ہوگیا کہ بلا مبالغہ پاکستان میں ایسا کوئی گائوں’ علاقہ اور شہر نہ ہو گا جہاں بیسیوں’ سینکڑوں اور ہزاروں حجاج موجود نہ ہوں… لیکن افسوس صد افسوس کہ اب حج کی وہ تعظیم ‘ تقدس ‘برکت اور اہتمام نہ رہا جو کبھی ہمارے بزرگوں کے زمانے میں تھا۔ لیکن پھر بھی جب حج کے ایام شروع ہوتے ہی لبیّک کا نغمہ گونجتاتھا تو عالم اسلام میں ایک تازگی اور بیداری کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ مجھے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ واقعہ یادآتا ہے کہ ”جب اللہ نے فرمایا کہ اب اعلان کرو کہ لوگ حج کیلئے آئیں ‘ تو آپ نے تعجب سے فرمایا کہ ان پہاڑوںسے میری آواز صحرائوںکو عبور کرتے ہوئے دنیا کو کیسے پہنچے گی۔ تواللہ تعالیٰ نے فرمایا’ آپ آواز دیں’ پہنچانا ہمارا کام ہے۔” اور پھر گذشتہ چودہ سو برسوں سے ان ہی ایام میں یہ آواز دنیا بھرکو پہنچتی رہی ‘ لیکن شاید ہمارے اعمال میں بڑی کمزوری واقع ہوئی ہے کہ گذشتہ تین برسوں سے موذی مرض کورونا کے سبب حرمین الشریفین کی وہ پرانی رونقیں اور حجاج کرام کی والہانہ عقیدتیں ماند پڑ گئی ہیں … پوری دنیا سے صرف ساٹھ ہزار حجاج کو اور خانہ کعبہ اور حرم شریف کے وسیع و عریض صحنوں ور احاطے کو خالی خالی دیکھتے ہوئے دل میںایک بڑی خلاسی محسوس ہونے لگتی ہے اور ماضی کی یاد میں علامہ اقبال کی یاد آجاتی ہے کہ
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروںسجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
اور دل بہت کڑھتا اور درد محسوس کرتا ہے کہ حرمین الشریفین میں سخت ایس او پیز لاگو ہیں لیکن یوروکپ ‘ فٹ بال ٹورنامنٹ اور سعودی عرب میں سینماز اور ہوٹلوں اور شاپنگ مالز میں روٹین کے مطابق معاملات جاری و ساری ہیں۔

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی