جلسے جو کامیاب نہ کہلا سکے

ہمارے صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کے لئے جوڑ توڑ اور کارنر میٹنگز زور و شور سے جاری ہیںگو یہ انتخابات عدالتوں کے کہنے پر سیاسی جماعتوں کی بنیاد پر ہورہے ہیں لیکن کئی سیاسی جماعتوں کے امیدوار اپنی پارٹی کی مقبولیت کو بھانپ کر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑرہے ہیں اور جی ہاں جیتنے کے بعد وہ اپنی پارٹی کا ٹکٹ لے لیں گے تاہم اس وقت وہ عوام کو جھانسہ دے کر ہر ایک سیاسی جماعت کے کارکن بلکہ ناراض کارکن کو اپنے آپ کو ووٹ دینے کے لئے منت سماجت کررہے ہیں ۔ پشاو ر شہر کی بات کروں تو تقریباً ہر گلی سے ایک امیدوار ضرور ہے ، بوڑھے جوان اور عورتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں یوں ہر محلہ کو جھنڈوں، بینروں اور پوسٹروں سے دلہن کی طرح سجا دیا گیا ہے ۔ایک چیز جو عام دیکھنے میں آرہی ہے کہ ہر کوئی دعویٰ کررہاہے کہ وہ نابکنے والا اور نہ جھکنے والا ایماندار اور بے لوث ہے۔ ہر کسی کا کہنا ہے کہ وہ مہنگائی کے خلاف بولے گا اور لوڈشیڈنگ کی کمی کیلئے پوری محنت کریگا۔ عوام بھی ہر ایک امیدوار کو خوش کرکے بھیج رہے ہیں کیونکہ عوام ابھی کسی انقلاب کے لئے تیار نہیں۔ تاہم سیاسی جماعتوں کے لئے زندگی و موت کا مرحلہ ہے اسی لئے وہ الیکشن میں بھی بھرپور حصہ لے رہی ہیں اور گاہے بگاہے جلسے کررہے ہیں۔
پرانے زمانے کی ایک کہانی ہے کہ ایک زمیندار نے اپنے کھیت سے ایک گیدڑ کو پکڑ لیا جو کہ روز کے روز آکر اس کے کھیت سے سبزی خراب کرتاتھا اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ گیدڑکو گاجریں پسند ہوتی ہیں وہ کھاجاتا تھامگر اس کے ساتھ ساتھ باقی سبزی کو بھی نقصان پہنچاتا تھا۔زمیندار نے گیدڑسے کہا کہ تم گاجریںکھائوں مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن جو تم میرے سارے کے سارے کھیت کی سبزیاں تباہ وبرباد کرتے ہومجھے اس پر سخت غصہ آتا ہے اور گزشتہ کئی راتوں سے میں تمہارا انتظار کررہا تھا کہ تمہیں رنگے ہاتھوں پکڑوںاور آج وہ دن آہی گیا آج میں تجھے مو ت کے گھاٹ اتار کر دم لوں گا۔گیدڑکو جب سامنے اپنی موت نظر آئی تو وہ اپنی چالاکی پرآگیا اور زمیندارکو کہا کہ اگر تونے مجھے ماردیا تو قیامت ہوجائے گی۔زمیندار بڑا حیران ہوا کہ ایک گیدڑ کے مرجانے سے کون سے قیامت آجائے گی اس نے گیدڑ سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہویہ کیسے ہوسکتا ہے کہ صرف تمہارے مرنے سے قیامت ہو۔گیدڑنے کہا اگرمجھے چھوڑ دوتو بتاتا ہوں زمیندار بھی پاکستانی عوام کی طرح سادہ تھا اس نے ایک عظیم راز پر سے پردہ اٹھانے کے لئے این آر او جاری کرتے ہوئے اس گیدڑ کو رہا کردیا ۔گیدڑتھوڑی دور جاکر بلند آواز میں گویا ہواکہ سادہ لوح دیہاتی زمیندار میرے مرنے سے کوئی قیامت نہیں آنی لیکن اگر میں مرجاتا تو میرے لئے تو وہ دن گویا آخری ہوتا اور پھر قیامت آج آئے یا برسوں بعد میں تو مرگیا میرے لئے تو قیامت ہی ہے۔
آج کچھ یہی حال پاکستان کے سیاستدانوں بلکہ دینی سیاست دانوں کا بھی ہے اور وہ ڈھنڈوراپیٹ رہے ہیںکہ لوگوگھروں سے نکلو قیامت آنے والی ہے بلکہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ”انقلاب” آرہا ہے۔ عام آدمی کو کہیںنظر نہیںآرہا لیکن یہ سیاست دان ہیںکہ مسلسل شعبدہ بازی کررہے ہیں کہ آئوگھروں سے نکلو انقلاب آرہا ہے ایسے میں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ کہیں مارشل لاء تو نہیں آرہا کہ جو ان سب سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروںکو کھاجائے گا یوں وہ دن ان کی سیاست موت ہوگی ان کے لئے تو گویا قیامت آہی گئی۔آج سے چند برس قبل میری طرح کا ہر بھولا پاکستانی جوق درجوق ان جلسئہ گاہوں کی طرف گیا جس کی وجہ سے جلسہ کسی کا بھی ہو’ چاہے وہ چھوٹی پارٹی تھی یا بڑی پارٹی ہر ایک کا جلسہ سینکڑوں نہیں ‘ ہزاروں نہیںبلکہ لاکھوں افراد پر مشتمل ہوتاتھا۔ہم مانتے ہیں کہ اس میں مبالغہ بھی ہوگا کیونکہ ہمارے رپورٹر حضرات ”بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لئے ” کے مصداق تعداد پچاس ہزار سے زائد ہوجائے تو پھر ”لاکھ ”تک پہنچا دیتے ہیں اور کچھ تو اس سے بھی بڑھ کر اسے” لاکھوں کاجلسہ ”قرار دے دیتے ہیں۔ میرے شہر پشاور میں تقریباً ہر سیاسی جماعت نے پاور شو کرنے کی اپنی سی پوری سعی کی مگر عوام ابھی اس موڈ میں نہیں کہ وہ کسی کے جلسے میں شرکت کریں۔ حالانکہ ہر پارٹی بشمول حکومتی پارٹی کہہ رہی ہے کہ عوام نے ان پر اعتماد کیا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ عوام مہنگائی سے سخت تنگ تو ہے لیکن ابھی کسی جنگ کے لئے تیار نہیں اسی لئے کسی بھی سیاسی پارٹی بلکہ اتحاد کو بھی لفٹ نہیں کروارہی حکومت کا جلسہ ناکام ہونے پر اپوزیشن کی جماعتیں میدان میں اتریں اور عوام کو ہوشربا مہنگائی کے خلاف اکساکر جلسہ گاہ کی طرف لانے کی پوری کوشش کی تاہم ابھی تک نام ہی ہیں اور تو اور متحدہ اپوزیشن کے رہنما مولانا فضل الرحمن کی ساری سیاسی چالوں پر بھی عوام ٹس سے مس نہیں ہورہی۔
ان جلسوں کو بلانے والی پارٹیاں سیاسی ‘ نیم سیاسی اور دینی سیاسی پارٹیاں شامل ہیں۔بڑی چھوٹی اور تانگہ پارٹیاں بھی اپنے اپنے جلسے کررہی ہیںہر ایک کے جلسہ میں تو سینکڑوںکیا درجنوں تک لوگ نہیں آرہے اور جیسے کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ ان جلسوں میں اکثریت تماشا دیکھنے والوں کی ہوتی ہے پاکستان کا عام آدمی روز روز کے جلسوں سے پریشان ہوگیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہر کوئی جلسہ کرناچاہتا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہمارا سادہ لوح پاکستانی اب کسی بھی جلسہ میں جانے کو تیار و آمادہ نظر نہیں آرہا ۔

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کااحسن منصوبہ